اللہ کے بندے




 اللہ کے نیک بندے

یہ کہانی ہے اللہ کےنیک بندوں کی کہ جنہوں نے اپنا سب کچھ قربان کردیا مگر اللہ کا بندہ بننا پسند کیا
            سورہ الکھف میں اللہ کے ان بندوں کا تفصیلی واقعہ موجود ہے کہ جب ان پر ایمان لانے کی وجہ سے آزمائش کا سامنا کرنا پڑا مگر اس آزمائش میں اپنا سب کچھ قربان کردیا لیکن ایمان کو قربان کرنا پسند نہ کیا۔ دنیا کا مال، جاہ و جلال، مرتبہ و عزت الغرض جو کچھ وہ کرسکتے تھے قربان کیا۔ گھر سے بے گھر ہوئے۔ والدین و اقرباء کی محبت کی قربانی دی۔ اپنے علاقہ کو خیر آباد کہا۔ بے آب و گیاہ وادی کا سفر کیا اور پہاڑوں کی غاروں کو مسکن بنایا۔ دنیا والوں سے دور، دنیا کی رنگینیوں سے دور، اپنے ایمان کو مقدم کرکے ہر چیزقربان کردی مگر ایمان کو سلامت رکھا۔

رب کو ادا پسند آئی

                    آخر  رب کو ان کی یہ ادا  اس قدر پسند آئی کہ کہ رب نے بھی ان کی حفاظت کا سامان کیا اور ان کی حفاظت کے لیے اپنے لشکروں کو لگادیا۔ كهتے هيں نا كه جو رب كے ليے سب كو قربان كرديتا هے تو رب اس كي خدمت پر سب كو لگاديتا هے۔ اس موقع پر چشم فلك نے ايسے هے منظر كا مشاهده كيا۔ هر ايك كو يقين کو آگیا کہ رب کبھی اپنے بندوں کو اکیلا نہیں چھوڑتا۔رب نے ان کے آرام کا بھی خوب سامان کیا اور انہیں 300 سال کے لیے گہری نیند سلادیا۔
            دشمنوں نے انہیں خوب تلاش کیا مگر رب نے دشمنوں کو ایسا اندھا کیا کہ وہ منہ کی کھاکر واپس پلٹ گئے۔آخر تین صدیاں گزریں دشمنوں کا نام و نشان مٹ گیا اور کفر کی جگہ ایمان نے لے لی۔ جو دشمن دین تھے وہ دین کی پناہ میں آگئے۔ 


جب  نیند میں تین صدیاں گزر گئیں

                آخر کار تین سو سال گزرنے کے بعد رب نے ان کی آنکھ کھول دی اور انہیں بھوک احساس ہوا۔ اپنے ہی ساتھیوں میں سے سمجھ دار اور نرم طبیعت شخص کو منتخب کرکے باہر روانہ کیا کہ جاؤ اور کچھ کھانے کے لیے لاؤ، مگر دھیان رہے کہ بات نرمی سے کرنا اور راز کو فاش مت ہونے دینا۔ کسی کو اپنے متعلق اور اپنے ٹھکانے کے متعلق کچھ مت بتانا۔ اللہ کا یہ بندہ جاتا ہے مگر جیسے ہی وہاں سے باہر کی جانب نکلتا ہے تو دیکھتا ہے کہ سارا ماحول بدلا بدلا لگ رہا ہے۔ ایمان کے نقوش چھا چکے ہیں اور  کافروں کے نشانات مٹ چکے ہیں۔ مگر پھر بھی خوب احتیاط سے بازار میں پہنچتا ہے اور جیب سے تین صدیاں پرانا سکہ نکال کر دکاندار کو آہستہ سے ضرورت کی چیز کے متعلق باخبر کیا۔ حساسیت ایسی کہ کسی کو احساس تک نہ ہو۔ سکہ ہاتھ میں لیتے ہی دکاندار کبھی سکہ کو دیکھتا ہے اور کبھی اس انجان مسافر کو دیکھتا ہے۔ الغرض اس دکاندار سے رہا نہیں جاتا اور وہ کوئی چیز ساتھ والی دکان سے لانے کا بہانہ بناکر چلاجاتا ہے اور یہ سکہ پڑوسی دکاندار کو دکھاتا ۔ الغرض بات باہر نکلتی ہے کہ یہ وہی سکہ اور انہی افراد میں سے ایک ہے جو ایمان لاکر غائب ہوگئے تھے۔


بات تھی کہ پھیل گئی:

                یہ بات پھیلتے ہین سب اکھٹے ہوجاتے ہیں اور اس اللہ والے سے تقاضہ کرتے ہیں کہ اپنا ٹھکانہ و بقیہ ساتھیوں سے ملاقات کرواؤ۔دراصل اس وقت سب مسلمان ہوچکے تھے اور کفریہ عقائد سے تائب ہوکر اسلام کی عمارت میں داخل ہوچکے تھے۔انہوں نے اسے تسلی بھی دے کہ ڈرو نہیں دشمن خدا خاب و خاسر ہوچکے ہیں۔  یہ اللہ کا بندہ وہاں سے حامی بھر کر نکلتا ہے اور سب اس کے پیچھے چلے آتے ہیں۔ اس کی رفتار قدرے تیز ہوتی ہے اس لیے اپنے ساتھیوں کے پاس جلد پہنچ کر انہیں سارے واقعہ کے متعلق باخبر کرتا ہے۔تب اب کا وقت اجل آجاتا ہے اور موت کا فرشتہ آکر ان کی روح قبض کرلیتا ہے۔یوں رب نے یہ ثابت کردیا کہ اس کے لیے کچھ مشکل نہیں کہ وہ زندہ کو 3 سو سال تک سلا دے مگر مردہ کو جگا دے۔

Comments

Popular posts from this blog